ہم پھر سے ویسے ہو جائیں گے؟ بچی کی آواز میں تپش تھی‘ وہ مسکرا کر کہہ رہی تھی ”کیا ہم کل سے دوبارہ ویسے ہو جائیں گے“ اور میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا‘ وہ بارہ تیرہ سال کی لڑکی تھی‘ روشن آنکھوں اور چمکتی جلد والی بچی۔میں روز رات بلیو ایریا کی ایک کافی شاپ سے کافی لیتا ہوں‘ میں عموماً شاپ کا آخری گاہک ہوتاہوں‘ عملہ مشین بند کرنے سے پہلے دروازے کی طرف دیکھتا رہتا ہے‘ میں جوں ہی اندر داخل ہوتا ہوں یہ لوگ مسکراتے ہیں اور کافی بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ میں کل رات شاپ میں داخل ہو رہا تھا اور وہ بچی اپنے والد کے ساتھ باہر آ رہی تھی‘ اس نے مجھے دیکھا اور جذباتی آواز میں بولی”انکل لاک ڈاؤن ختم ہورہا ہے‘ کیا ہم کل سے دوبارہ ویسے ہو جائیں گے“ میں رک گیا اور میں نے اس کے والد کی طرف دیکھ کر کہا ”ہاں شاید“ والد نے قہقہہ لگایا اور میرے لیے راستے چھوڑ دیا‘ میں اندر داخل ہو گیا لیکن بچی دروازے پر کھڑی ہو کر میری طرف دیکھتی رہی‘ میں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا‘ وہ بولی ”لیکن میں ویسا نہیں ہونا چاہتی‘ کرونا کی لائف اچھی ہے“ میری ہنسی نکل گئی اور میں نے بچی سے کہا ”مگر بیٹا یہ لائف آپ ک